قرآن مجید کی اہمیت و فضیلت

  • Admin
  • Aug 11, 2021

قرآن مجید کی اہمیت و فضیلت:

قرآنِ حکیم وہ کتاب ہے جسے اس کائنات کے خالق و مالک نے اشرف الانبیاء حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نازل فرمایا۔ قرآنِ پاک کی تلاوت کے بےشمار فضائل ہیں ۔

قراٰن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَۙ

ترجمۂ کنز الایمان: اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز جو ایمان والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔

پ15،بنی اسرآءیل:82

قرآنِ کریم میں ربِّ کعبہ نے خود فرمایا کہ قرآن رحمت اور شفاء ہے۔ آج ہمارا کیا حال ہے؟ ہم بیماریوں کی دوا کرنے کے لئے طبیبوں (ڈاکٹروں) کے پاس تو جاتے ہیں لیکن قرآن پاک پڑھتے تو کیا کھول کردیکھتے بھی نہیں ہیں، ہمیں دوا کے ساتھ ساتھ تلاوت قرآن سے بھی لازمی برکتیں لینی چاہئیں۔ ہمیں غور کرنا چاہئے کہ آج ہمارے گھر میں بیماریاں اور پریشانیاں قرآن کی تلاوت نہ کرنے کے سبب تو نہیں؟

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:و شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِۙ۬

ترجمۂ کنزالایمان:(قرآن) دلوں کی صحت  ہے۔پ11،یونس:57

قرآن دلوں کا سکون ہے، قرآن دلوں کا چین ہے، قرآن کی تلاوت کرنے سے بیماریوں سے شفا ملتی ہے نیز احادث مبارکہ میں بھی قرآن کی تلاوت کے بے شمار فضائل ذکر کئے گئے جیساکہ بیھقی شریف کی ایک حدیثِ مبارکہ ہے:

 نبیِّ کریم علیہ السَّلام نے ارشاد فرمایا: قرآن کریم کی تلاوت اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کا اہتمام کیا کرو اس عمل سے آسمانوں میں تمہارا ذکر ہوگا اور یہ عمل زمین میں تمہارے لئے ہدایت کا نور ہوگا۔(بیھقی)

قرآن مجید کی بے انتہا عظمت کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ وہ کلام اللہ ہے اور اللہ تعالی کی حقیقی صفت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہے یہاں تک کہ زمینی مخلوقات میں کعبۃ اللہ اور انبیاء علیہم السلام کی مقدس ہستیاں اور عالم بالا و عالم غیب کی مخلوقات میں عرش،کرسی، لوح و قلم، جنت اور جنت کی نعمتیں اور اللہ کے مقرب ترین فرشتے یہ سب اپنی معلوم و مسلم عظمت کے باوجود غیر اللہ اور مخلوق ہیں؛ لیکن قرآن مجید اللہ تعالی کی پیدا کی ہوئی اور اس سے الگ کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کی حقیقی صفت ہے جو اس کی ذاتِ عالی کے ساتھ قائم ہے یہ اللہ پاک کا بے انتہا کرم اور اس کی عظیم تر نعمت ہے کہ اس نے اپنے رسولِ امین صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے وہ کلام ہم تک پہنچایا اور ہمیں اس لائق بنایا کہ اس کی تلاوت کر سکیں اور اپنی زبان سے اس کو پڑھ سکیں پھر اس کو سمجھ کر اپنی زندگی کا راہنما بنا سکیں ۔

قرآن مجید میں ہے کہ اللہ تعالی نے طوی کی مقدس وادی میں ایک مبارک درخت سے حضرت موسی علیہ السلام کو اپنا کلام سنوایا تھا۔ کتنا خوش قسمت تھا وہ بے جان درخت جس کو حق تعالیٰ نے اپنا کلام سنوانے کے لیے بطور آلہ کے استعمال فرمایا تھا۔ جو بندہ اخلاص اور عظمت و احترام کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے اس کو اس وقت شجرۂ موسوی نصیب ہوتا ہے اور گویا وہ اس وقت اللہ تعالی کے کلام مقدس کا ریکارڈ ہوتا ہے۔ حق یہ ہے کہ انسان اس سے آگے کسی شرف کا تصور بھی نہیں کر سکتا ۔

قرآن بے مثل ہے قیامت تک کے لئے پوری دنیا کو چیلنج:

فرما دیجیے کہ اگر انسان اور جن تمام مل کر بھی اس قرآن کی مثال لانا چاہیں تو نہیں لا سکتے۔ بنی اسرائیل:88

سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو بارگاہِ الٰہی سے جو معجزات عطا ہوئے ان میں سب سے بڑا معجزہ خود قرآن حکیم ہے چنانچہ کفار نے جب معجزہ طلب کیا، تو اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ۔

اور انہوں نے کہا کہ پیغمبر پر اس کے خدا کی طرف سے نشانیاں کیوں نہ اتریں؟ کہہ دے کہ نشانیاں خدا کی قدرت میں ہیں میں تو صاف صاف خدا کے عذاب سے صرف ڈرانے والا ہوں، کیا ان کو یہ نشانی کافی نہیں کہ ہم نے اس پر کتاب اتاری جو ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہے! سورہ عنکبوت، آیت: 50۔ 51

لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی کتاب آئی ہے جو سراسر نصیحت اور دلوں کی بیماری کے لئے شفا ہے اور ( اچھے کام کرنے والوں کے لئے اس قرآن میں) رہنمائی اور ( عمل کرنے والے) مومنین کے لئے ذریعہ رحمت ہے آپ کہہ دیجئے کہ لوگوں کو اللہ تعالی کے اس فضل و مہربانی یعنی قرآن کے اترنے پر خوش ہونا چاہیے۔ یہ قرآن اس دنیا سے بدرجہا بہتر ہے جس کو وہ جمع رہے ہیں ۔سورہ یونس: 57- 58

آپ فرما دیجیے کہ بلاشبہ اس قرآن کو روح القدس یعنی جبرئیل علیہ السلام آپ کے رب کی طرف سے لائے ہیں تاکہ یہ قرآن ایمان والوں کے ایمان کو مضبوط کرے اوریہ قرآن فرمانبرداروں کے لیے ہدایت اور خوشخبری ہے۔

 سورہ نحل: 102

یہ قرآن جو ہم نازل فرما رہے ہیں یہ مسلمانوں کے لیے شفا اور رحمت ہے ۔سورہ بنی اسرائیل: 82

اور یہ بڑی باوقعت کتاب ہے جس میں غیر واقعی بات نہ اس کے آگے کی طرف سے آ سکتی ہے اور نہ اس کے پیچھے کی طرف سے یہ خدائے حکیم و محمود کی طرف سے نازل کی گئی ہے ۔حم سجدہ:41- 42

پھر کیا یہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے اگر یہ کسی دوسرے کی طرف سے ہوتا ( اللہ تعالی کی طرف سے نہ ہوتا) تو ضرور یہ اس کی بہت سی باتوں میں اختلاف پاتے ۔سورہ نساء: 82

کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اس کو اپنے جی سے بنا لیا ہے تو کہہ دے کہ وہ ایسی بنائی ہوئی دس سورتیں ہی لے آئیں اور اپنی مدد کے لیے خدا کے سوا جس کو چاہیں بلالیں۔ اگر وہ سچے ہیں ۔سورہ ھود:10

اگر تم کو اس میں بھی کوئی شک ہو جو ہم نے اپنے بندہ پر اتارا ہے تو اس جیسی ایک ہی سورہ لے آؤ اور خدا کے سوا اپنے تمام گواہوں کو بلاؤ اگر تم سچے ہو ۔سورہ بقرہ: 23

قرآن انسانیت کے لیے آب حیات:

یہ کتاب ہم نے آپ کی طرف اس لیے اتاری ہے تاکہ اس کے ذریعہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالیں ۔سورہ ابراھیم: 1

قرآن مجید انسانوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لانے والی کتاب ہے،بھٹکے ہوؤں کو سیدھا راستہ دکھا نے والی کتاب ہے، قعر مذلت میں پڑے ہوؤں کو اوج ثریا پر پہنچانے والی کتاب ہے،اور اللہ سے بچھڑے ہوؤں کو اللہ سے ملانے والی کتاب ہے، قرآن مجید انسانیت کے لئے منشور حیات ہے، انسانیت کے لئے دستور حیات ہے، انسانیت کے لیے ضابطۂ حیات ہے، بلکہ پوری انسانیت کے لیے آب حیات ہے،قرآن مجید ایسی کتاب ہے جس کا دیکھنا بھی عبادت ہے، اس کا چھونا بھی عبادت ہے، اس کا پڑھنا بھی عبادت ہے، اس کا پڑھانا بھی عبادت ہے، اس کا سننا بھی عبادت ہے، اس کا سنانا بھی عبادت ہے، اس کا سمجھنا بھی عبادت ہے، اس پر عمل کرنا بھی عبادت ہے، اور اس کا حفظ کرنا بہت بڑی عبادت ہے۔

قرآن کا معلم اور متعلم :

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سب سے بہتر اور افضل بندہ وہ ہے جو قرآن کا علم حاصل کرے اور دوسروں کو اس کی تعلیم دے ۔صحیح بخار

قرآن مجید کو کلام اللہ ہونے کی حیثیت سے جب دوسرے کلاموں پر اس طرح کی فوقیت اور فضیلت حاصل ہے جس طرح کی اللہ تعالی کو اپنی مخلوق پر حاصل ہے تو ظاہر ہے کہ اس کا سیکھنا سکھانا دوسرے تمام اچھے کاموں سے افضل و اشرف ہو گا۔ 

قرآن مجید کو اللہ تعالی سے لینا اس کی حکمت کو سمجھنا اور دوسروں تک پہنچانا اور اس کو سکھانا تھا اس لیے اب قیامت تک جو بندہ قرآن مجید کے سیکھنے سکھانے کو اپنا شغل اور وظیفہ بنائے گا وہ گو یا رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے خاص مشن کا علمبردار اور خادم ہو گا۔ اور اس کو رسول صلی اللہ وسلم سے خاص الخاص نسبت حاصل ہوگی۔اس بنا پر قرآن پاک کے متعلم اور معلم کو سب سے افضل و اشرف ہونا ہی چاہئے لیکن یہ اسی صورت میں ہے جب کہ قرآن مجید کا یہ سیکھنا سکھانا اخلاص کے ساتھ اور اللہ کے لیے ہو اگر بدقسمتی سے کسی دنیوی غرض کے لیے قرآن سیکھنے سکھانے کو کوئی اپنا پیشہ بنائے تو حدیث پاک میں ہے کہ وہ ان بد نصیبوں میں سے ہو گا جو سب سے پہلے جہنم میں جھونکے جائیں گے اور اس کا اولین ایندھن بنیں گے۔اللھم احفظنا